منگل، 15 ستمبر، 2015

اردو زبان و ادب کا خاکہ: ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی





اردو زبان و ادب کا مختصر خاکہ

ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی

در حقیقت لفظ ''اردو'' لغوی اعتبار سے لشکر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، اردو کو اردو اسی لئے کہا جاتا ہے کہ یہ لشکری زبان ہے کیونکہ اس میں تقریباً ہر زبان کے الفاظ موجود ہیں؛ مثلاً: ''دسترخوان'' ترکی زبان ہے؛ ''باجی'' یعنی بڑی بہن، یہ بھی ترکی زبان میں استعمال ہوتا ہے؛ ''شراب'' عربی زبان کا لفظ ہے؛ خود لفظ''اردو'' اور لفظ ''ادب'' فارسی زبان سے ماخوذ ہیں؛ اردو زبان میں پچاس فیصد سے زیادہ فارسی الفاظ ہیں، بیس فیصد سے زیادہ عربی الفاظ استعمال ہوتے ہیں اورتقریباً دس فیصد انگریزی،ترکی اوردیگر زبانوں کے الفاظ کا استعمال ہے۔ لیکن اس زبان کی چاشنی کو دیکھتے ہوئے یہ کہہ دینا کہ یہ زبان عرب سے آئی ہے، اس زبان کے ساتھ کھلم کھلا ناانصافی ہے کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ اردو زبان کی جائے پیدائش ''ہندوستان کی سرزمین'' ہے؛ کسی زبان میں دیگر زبانوںکے الفاظ کا آجانا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ زبان اسی زبان کی مرہون منت ہے، یوں تو انگریزی اور دیگر زبانوں میں بھی بہت سے ایسے الفاظ ہیں کہ جن کو اردوزبان سے لیا گیا ہے یا فارسی وعربی زبان سے لیا گیا ہے تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ انگریزی زبان عرب سے آئی ہے؟ جی نہیں! بالکل نہیں کہاجاسکتا تو پھر اردوزبان پر یہ تہمت لگانا کہ یہ زبان، عرب سے آئی ہے، اس زبان کے ساتھ سراسر ناانصافی کا ثبوت دینا ہے۔
اردو کے تمام ادیبوں، عالموں، محققوں اور ماہرین لسانیات کے خیالات و نظریات کا خلاصہ یہ ہے کہ اردو زبان ایک مخلوط زبان ہے جو ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد چودہویں صدی میں شمالی ہندوستان میں معرضِ وجود میں آئی،چونکہ اس دور میں سرزمین ہندوستان مغل سلاطین کے زیر تسلط تھی لہٰذا اس میں فارسی الفاظ کی بھرمار نظر آتی ہے اور اس پر دہلی اور اس کے آس پاس کی بولیوں کے بھی نمایاں اثرات پڑے۔ ان میں سے مسعود حسین خاں اردو کی پیدائش کو دہلی اور نواحِ دہلی سے، حافظ محمود خاں شیرانی پنجاب سے، سید سلیمان ندوی وادیِ سندھ سے ، اور سہیل بخاری مشرقی مہاراشٹر سے منسوب کرتے ہیں۔ اسی طرح محمد حسین آزاد کے خیال کے مطابق اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے۔ گیان چند جین کے نظریہ کے مطابق اردو کی اصل کھڑی بولی اور صرف کھڑی بولی ہے۔ ان اردو داں ادباء اور علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اردوزبان ایک خالص ہندوستانی زبان ہے۔ اس کا ڈھانچا یہیں کی بولیوں کے خمیر سے تیار ہوا ہے اور یہ زبان ہندوستانی سانچہ میں ڈھلی ہوئی ہے۔ لیکن اس پر عربی اور فارسی زبان کے نمایاں اثرات پڑے ہیں۔ یہ ہندوئوں اور مسلمانوں کی مشترکہ میراث ہے، کیوں کہ اس کی پیدائش میں دونوں قوموں کا حصہ برابر ہے یہی وجہ ہے کہ دور حاضر میں کوئی بھی ہندو خالص ہندی نہیں بول پاتا بلکہ اس میں اردو کے الفاظ نظر آتے ہیں، ہندوستان کا کوئی ٹی وی پروگرام یا کوئی سیریل دیکھ لیجئے، یہاں تک کہ اگر وہ ہندی تاریخ کا بھی سیریل ہوگا تو اس میں اردو الفاظ کا استعمال ناگزیر طورپر ملے گا کیونکہ اردوزبان کا دامن اتنا وسیع ہے کہ اس میں ہرزبان کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو کہ دیگر زبانوں میں بہت کم نظر آتے ہیں۔ انگریزی مصنفین کی تحریروں کا جائزہ لینے کے بعد بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اردو زبان کی پیدائش ہندوستان میں ہی ہوئی ہے، یہ زبان کہیں سے نہیں آئی ہے، اسی طرح ہندی ادیبوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ اس زبان کی جنم بھومی بھارت کی سرزمین ہے؛ ان ادیبوں میں سے ''جارج اے، گریرسن''، ''جان ایف، کی''، '' سنیتی کمار چٹرجی''،'' امرت رائے''، ''چندر دھر شرما گلیری''، ''ایودھیا پرشاد کھتری'' ،'' دھیریندر ورما''، ''الوک رائے ''اور ''بال گووند مشرا'' کے اسماء قابل ذکر ہیں۔
اردو زبان پر مشتمل ادب کو اردو ادب سے تعبیرکیاجاتا ہے جو نثر اور شاعری پرمشتمل ہے۔ نثری اصناف میں ناول،افسانہ،داستان،انشائیہ،مکتوب نگاری اورسفر نامہ شامل ہیں۔جب کہ شاعری میں غزل،نظم،مرثیہ،قصیدہ اور مثنوی ہیں۔ اردو ادب میں نثری ادب بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ شعری ادب، لیکن مشہور یہ ہے کہ غزل اور نظم سے ہی اردو ادب کی شان بڑھی ہے۔ اردو ادب ہندوستان کی ایجاد، پاکستان میں مقبول اور افغانستان میں بھی معروف ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کسی نے اس کو اپنالیا اور کسی نے ترک کردیا ورنہ اس کی حقیقی جائے پیدائش ''سرزمین ہندوستان'' ہے، اور اس کو کسی دوسرے ملک کی جانب نسبت دینا لاعلمی کا نتیجہ ہے۔
اردو ادب کے ماہرین: یوں تو اس میدان میں بہت سے ماہرین زبان نے جدوجہد کی ہے اور اردو ادب کو نئی نئی جہات سے نوازا ہے لیکن ہرمیدان کی فتح کا سہرا سب کے سر نہیں بندھتا بلکہ بعض خصوصی شخصیتوں کے سرہوتا ہے،اس ضمن میں''امیر خسرو ''''محمد قلی قطب شاہ''اور''شمس اللہ قادری'' کے اسماء قابل ذکر ہیں کیونکہ امیر خسرو، اردو ادب میں ہی نہیں بلکہ ہندی ادب میں بھی کافی اہم ادیب مانے جاتے ہیں۔ ان کا شماراردو زبان اور اردو ادب کے بانیوں میںہوتا ہے۔ امیر خسرو فارسی، عربی اور ہندی زبان میں ماہر تھے۔ اردو زبان کے آغازمیں انہوں نے ان زبانوں کو ایک مربی کی شکل میں اردوزبان میں پیش کیا۔ محمد قلی قطب شاہ دکنی کو اردو، فارسی، عربی اور تیلگو زبانوں پر کافی عبورحاصل تھا۔ یہ اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر تھے، ان کی کلیات ، کلیاتِ قلی قطب شاہ ہے۔انھوں نے تیلگو زبان میں بھی شاعری کی۔ انہیں کی کاوشوں کے نتیجہ میں اردو زبان، ادبی زبان کی حیثیت سے جانی گئی۔دکنیات کے تحقیقی جائزہ کا سہرا شمس اللہ قادری کے سر جاتا ہے کیونکہ انھوں نے دکن کے متعلق بہت سی تحقیقات کیں اور ان پر مسودے آمادہ کئے۔
اردو ادب میں شاعری کا مقام: شاعری (Poetry) کا مادہ ''شعر''ہے ،اس کے معنی کسی چیز کے جاننے پہچاننے اور واقفیت کے ہیں۔ لیکن اصطلاح میںشعر اس موزوںکلامِ کو کہتے ہیں جو قصداً انشاء کیا جائے۔ یہ موزوںکلام ،جذبات اور احساسات کا تابع ہوتا ہے اور کسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے کوئی حادثہ دیکھا ہو اور وہ آپ کے دل پر اثر اندازہو گیا ہو اور آپ کے اندر سے خود بخود الفاظ کی صورت میں ادا ہو جائے، اس اثر کے بیان کو شعر کہتے ہیں اور انہی شعروں کو شاعری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں تعبیرکیاجائے تو شاید بہتر ہوکہ''موزوں الفاظ میں حقائق کی تصویر کشی کو شاعری کہتے ہیں''۔شاعری کسی بھی انسان کے لئے اپنے احساسات و جذبات اور مشاہدات و تجربات کی عکاسی کا نام ہے کوئی بھی انسان ہو وہ ہر وقت کسی نہ کسی چیز یعنی قدرت کی تخلیق کردہ اشیاء کے مشاہدے میں یا اپنی ایجادات اور تخلیقات میں مصروف رہتا ہے اور کسی نہ کسی فکر میں گم رہتا ہے، ہر انسان اپنے نظریہ سے سوچتا ہے لیکن حساس لوگوں کا مشاہدہ بہت ہی گہرا ہوتا ہے، شاعری کا تعلق حساس لوگوں سے زیادہ ہوتاہے لیکن اِن مشاہدات و خیالات اور تجربات کے اظہار کرنے کا طریقہ الگ الگ ہے، کچھ لوگ اس کو عام باتوں کی طرح سے ظاہر کرتے ہیں،کچھ لوگ نثر کی صورت میں بیان کرتے ہیں جن کو مضمون، ناول نگاری، افسانوں اور کہانیوں کے زمرے میں رکھا جاتا ہے، کچھ لوگ مختلف فنون جیسے مسجمہ سازی، سنگ تراشی، نقش نگاری اور فنِ مصوری کے ذریعے اپنے خیال کا اظہار کرتے ہیں اور کچھ لوگوں کے اظہارِخیال کا ذریعہ شاعری ہوتی ہے؛ شاعری ہرزبان میں کی جاسکتی ہے، ہر زبان کے اپنے اصول ہیں لیکن لفظ شاعری صرف اردواورعربی وفارسی زبان سے مخصوص ہے؛ شاعر اپنے خیالات و مشاہدات اور احساسات و تجربات کو اپنے تخیل کے سانچے میں ڈھال کر اسے اک تخلیق کی صورت میں اخذ کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اپنی فکر کو دوسرے لوگوں تک ہو بہو اسی طرح منتقل کردے جیسے اس نے سوچاہے، اس طرح تخلیق کار کو اطمینان حاصل ہوتا ہے، صدیوں سے لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں، آج بھی تاریخی عمارات و مقامات پہ بنے نقش و نگار اور آثار قدیمہ میں ملنے والی اشیاء سے گذشتہ زمانوں کے لوگوں کے خیالات اور حالات و واقعات کی عکاسی ملتی ہے جس سے موجودہ زمانے کے لوگ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس دور میں لوگوں کے حالات زندگی اور انکا رہن سہن کیسا تھا، یہی وجہ ہے کہ ہر دور کے شعرا ء کی تحریروں میں ان کے زمانے کے حالات و واقعات کی عکاسی ملتی ہے ،شاعری کی بہت سی اقسام ہیں جن میں سب سے قدیم اور مشہور صنف ''غزل'' ہے غزل ایک مخصوص اندازِ تحریر ہے جو کہ شاعری سے منسوب ہے جس کے اصولوں پہ فارسی اور پنجابی زبانوں میں شاعری لکھی جاتی ہے لیکن لفظ غزل صرف اردو شاعری سے مخصوص ہے، شاعری کی مشہور اصناف میں حمد، نعت، مثنوی، مسدس، نظم، پابند نظم، آزاد نظم، قصیدہ، رباعی، سلام اورنغمہ سرِ فہرست ہیں ؛ شاعری کے سب سے بڑے تاریخی اردوشاعر ہندوستان میں ملتے ہیں جن میں میر تقی میر، مرزا اسد اللہ غالب، داغ دہلوی اور بہادر شاہ ظفر کے نام سرِفہرست ہیں۔ تقسیمِ ہندوستان کے بعد بہت سے مشہور شعرا ء کا تذکرہ ملتا ہے جن میںہندوستان و پاکستان کے شعراء شامل ہیں۔ ان شعرا ء میں سب سے زیادہ مشہور ہستیاں:''حسرت موہانی''''علامہ اقبال'''' فیض احمد فیض''اور ''ابن انشائ''کے اسماء قابل ذکر ہیں۔
اردو شاعری کے اجزائ: (١)شعر: دوسطروں پر مشتمل شئے کو شعر کہاجاتا ہے (٢)مصرع: شعر کی ایک سطر کو مصرعہ سے تعبیرکیاجاتاہے (٣)مطلع: کلام کا وہ پہلا شعر جس کی دونوں سطروں میں ردیف کا استعمال کیا جائے اس کو مطلع کہتے ہیں (٤)حسن مطلع: مطلع کے بعد آنے والاوہ شعر جس کی دونوں سطروں میں ردیف کا استعمال ہو اور وہ مطلع کے حسن میں اضافہ کاباعث ہو اس کو حسن مطلع سے تعبیرکیاجاتاہے (٥)تضمین: اگر کوئی مصرعہ دیا جائے اور اس پر گرہ لگائی جائے تو اس کو تضمین کا نام دیا جاتا ہے (٦)قافیہ: جوالفاظ ردیف سے پہلے ایک جیسے استعمال ہوں، ان کو قافیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے مثلاً: حسن،چمن، گگن وغیرہ (٧)ردیف:جو لفظ قافیہ کے بعد آئے اور اس کو بغیر کسی تبدیلی کے شعر کے آخر میں لایا جائے اس کو ردیف کہاجاتا ہے (٨)بحر: تمام مصرعوں کا مصرعۂ اول کے وزن پر موجود رہنا بحر کہلاتا ہے، اگر مصرعہ اِدھراُدھر ہوجائے تو کہا جاتا ہے کہ یہ مصرعہ بحر میں نہیں ہے (٩)تقطیع: کلام کے ہر مصرعہ کو اس کی زمین کے مطابق ٹکڑے ٹکڑے کرکے یہ دیکھنا کہ ہمارا مصرعہ بحر میں ہے یا نہیں! تقطیع کہلاتا ہے (١٠)مقطع: کلام کا آخری شعر یا وہ شعر جس میں شاعر اپنا تخلص لائے اس کو مقطع کے نام سے جانتے ہیں۔
اردو شاعری کے قوانین: (١)دورحاضرکاشاعر،الفاظ کا استعمال اسی طرزپرکرے جس طرز پر اردوادب کے شعراء نے استعمال کیا ہے (٢)خالص اردو میںاضافت نہیں ہوتی لہٰذا اگر مضاف ومضاف الیہ میں سے کوئی ایک لفظ اردوزبان کاآجائے تو وہ اضافت صحیح نہیں ہوگی بلکہ دونوں کو فارسی زبان میں ہونا چاہئے۔ صحیح اضافت مثلاً: زیرِ شمشیر، نمک خوارِ خدیجہ، دردِسر، دردِکمر، دردِچشم، آشوبِ چشم، زیرِ لب، آبِ رواں اورخوشنودیِ خدا وغیرہ۔ غلط اضافت مثلاً: زیرِ تلوار، دردِ آنکھ، آنکھِ دشمن، دردِ ٹانگ، ہاتھِ خدا اور کمبلیِ پیغمبرۖ وغیرہ۔ (٣)کلام میں بحر کی رعایت (٤)قافیہ کی رعایت (٥)ردیف کی رعایت (٦)اگرکلام غیرمردّف(ردیف سے خالی)ہو تو صرف قافیہ کی رعایت (٧) مطلع کی رعایت (٨)حسن مطلع کا لانا ضروری نہیں ہے لیکن اگر لایا جائے تو کوئی حرج بھی نہیں ہے (٩)مقطع کا لانا ضروری نہیں لیکن حفظ ماتقدم کے طورپر لانا بہتر ہے (١٠)اگرقطعہ یا رباعی کہناچاہیں تو چاروں مصرعوں میں ایک مفہوم کو نبھانا لازم ہے۔ یوں تو اور بھی قوانین ہیں لیکن اگر شاعری کے میدان میں تازہ قدم رکھنے والا شخص ان قوانین کی رعایت کرلے تو اس کی شاعری قوانین کے تحت رہے گی لیکن اگر ان قوانین کی رعایت نہ کی جائے تو وہ شاعری نہیں بلکہ تک بندی کہلائے گی لہٰذا قوانین کی رعایت کرنا لازم ہے۔
منابع و ماخذ:
(1) J. S. Ifthekhar (January 12, 2012). "Solemnity envelops Qutb Shahi tombs". The Hindu.
(2) http://www.usindh.edu.pk/tahqiq/articles/18.pdf
^ "Salateen E Muabber". Muslim University Press Aligarh۔ اخذ کردہ بتاریخ (3) 31 August 2013.
(4) "Urdu-i-qadim". Urdu literature - History and criticism. Lucknow : [s.n.], 1930..
^ Sayyed ShamsUllah Qadri (1930). "Tareekh - Malabaar" (Urdu میں(5) Hindustan - Malabaar. Aligarh: Muslim University Press. 98.
^ Syed Shams Ullah Qadri (1933). "Moorrakheen-E-Hind" (Urdu میں(6) Bibliographical Studies In Indo-Muslim History. HYDERABAD DECCAN: THE MAGAZINE TAREEKH. 139.
(7) Tuhfat al-mujahidin.
^ Sayyed Shams Ullah Qadri (1925). "Imadia" (Urdu میں(8) Imad-Ul-Mulk - Sawaneh Tazkira - Nawabeen Awadh - Imad-Ul-Mulk. Hyderabad: Tarikh office. 330.
^ Sayyed ShamsUllah Qadri (1930). "Nizam Ut Tawareekh" (Urdu میں(9) GENERALITIES. Hyderabad: Tareekh Press. 158.
^ Sayyed Shams Ullah Qadri. "Tareekh Zuban Urdu - Urdu-E-Qadeem" (Urdu میں(10) Urdu Zuban - Tareekh. Taj Press. 134.

  

اتوار، 30 اگست، 2015

تعلیم کی اہمیت: ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی



تعلیم کی اہمیت،آیات و روایات کے تناظر میں

ضیاء الافاضل مولانا سید غا فر رضوی

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس ترقی یافتہ دورمیں تعلیم نہایت ہی ضروری اوراہم امورمیں سے ہے،ہرزمانہ کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں لیکن علم ایسی شئے ہے جس کا متقاضی ہر زمانہ رہا ہے؛ یہ بات الگ ہے کہ گزشتہ زمانوں میں بغیرتعلیم کے بھی گزربسرہوجاتی تھی اور تھوڑا سا پڑھاہوا انسان بھی بڑا افسربن جایاکرتاتھا لیکن زمانے کے ساتھ ساتھ معیار تعلیم بھی ترقی کررہا ہے اور اس دور میں پڑھائی کی کمی معاشرہ کے لئے ناسورسے کم نہیں ہے۔کیونکہ گزشتہ زمانوں میں دورحاضرجیسی ترقیوں کا فقدان تھااوراونٹ،بیل گاڑی، گھوڑے وغیرہ پر سفرکیاجاتا تھا اورایک سبب یہ تھا کہ کچھ لوگوں کے حالات نے تعلیم میں دلچسپی نہیں لینے دی اسی باعث علم کی اہمیت کودرک نہ کرسکے، لیکن دورحاضراس لاعلمی کا سخت مخالف ہے اور ببانگ دہل پکاررہا ہے کہ بغیرتعلیم کے کچھ نہیں ہے یہاں تک کہ اگرکوئی دولت علم سے مالامال نہیں ہے توگاڑی کے نمبربھی نہیں پڑھ سکتاجس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ منزل سے محروم رہ جائے گا۔ کیا کسی کویہ گوارہ ہے کہ وہ منزل مقصودتک رسائی حاصل نہ کرپائے؟ ہرگزنہیں! ہرشخص اپنی مطلوبہ منزل تک پہونچنے کا خواہاں ہے ،لہٰذا اگرہمیں منزل مقصود درکار ہے تو علم کادامن تھامنا ہوگاکیونکہ بغیرتعلیم کے منزل مقصودتک رسائی ممکن نہیں!۔خداوندعالم سورۂ جمعہ کی دوسری آیت میں اپنے رسول{ص }کی شان میں ارشادفرماتا ہے: (ہم نے انھیں ''اپنے رسول{ص } کو''کتاب وحکمت کی تعلیم دی)۔ اس آیۂ مبارکہ کے تناظرمیں حبیب خدا {ص }کی جانب جہالت کی نسبت دینا قرآنی مفاہیم سے لاعلمی کا نتیجہ ہے۔ رسول خدا {ص }کی جانب جہالت کی نسبت دیناتاریخ اسلام کا بہت بڑا المیہ ہے، کیونکہ جہالت کی نسبت دینے والے خودجاہل ہیں،اگرجاہل نہ ہوتے تواحکام خداوندی کو درک کرنے کی صلاحیت ہوتی،مذکورہ بالا آیۂ کریمہ کے تحت آنحضرت {ص }کی جانب جہالت کی نسبت دینافرمان الٰہی کی مخالفت ہے، اورفرمان الٰہی سے سرپیچی انسان کو کفرکے زمرہ میں قراردیتی ہے لہٰذا یہ اعتقاد لازم ہے کہ جوتمام کائنات کوہدایت دینے کی خاطربھیجا گیاہووہ جاہل نہیں ہوسکتاکیونکہ خداوندعالم پوری کائنات کی باگ ڈور کسی جاہل کے سپردنہیں کرسکتا اور اس کا مشاہدہ خود دورحاضرمیں بھی بخوبی کیاجاسکتا ہے کہ کسی کم علم کو کسی بھی عہدہ سے سرفراز نہیں کیاجاتا!۔اس بحث سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ خداکا رسول{ص } عالم تھا اورخدانے ہمیں اپنے رسول کی سیرت پرگامزن ہونے کاحکم دیا ہے اورچونکہ حبیب خدا{ص } عالم تھے لہٰذا آنحضرت کی سیرت پرعمل پیراہوتے ہوئے اورحکم خداوندی کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے ہرمسلمان کا فریضۂ عینی ہے کہ دولت علم وکمال سے مالامال ہو۔ چونکہ علم ایک فضیلت ہے اور فضیلت کے ہمیشہ دشمن رہے ہیں لہٰذا علم کے دشمن بھی بہت زیادہ ہیں، تاریخ آدم وعالم شاہد ہے کہ ہمیشہ اس فضیلت کے مدمقابل دشمنی کی دیواریں کھڑی رہیں، خداوندعالم نے جناب آدم کو گوہرعلم سے نوازا تو ان کے مقابل شیطان کی جہالت نے جنم لیا۔ خدانے موسیٰ کلیم اللہ کو زیورعلم سے مزین فرمایاتوان کے مدمقابل فرعون جیسا ظالم وجابراورشاطرمزاج کھڑا نظرآیا۔ خدانے جناب ابراہیم خلیل اللہ کو اس دولت سے مالا مال کیا تو نمرود جیسا سفاک سامنے آگیا اور خلیل خدا کو نذرآتش کردیا لیکن خدانے اپنی قدرت کا جلوہ کچھ ایسے دکھایا کہ آتش نمرود کو گلزاربنادیااورجہالت کویہ سمجھادیاکہ جہالت چاہے کتنی ہی بڑی ہو لیکن علم کے مقابلہ میں ناچیز ہے کیونکہ علم ایک فضیلت ہے اور ہم کبھی بھی کسی فضیلت کوسرنگوں نہیں ہونے دیں گے، اگر علم اورجہالت کامقابلہ ہوگا توہمیشہ علم ہی فتحیاب ہوگا۔ یہی سبب ہے کہ امام حسین زیورعلم سے آراستہ وپیراستہ تھے تو ان کے مقابل یزید جیسا جاہل کھڑاہوگیالیکن نتیجہ میں شکست سے دوچارہوناپڑا۔علم دشمن افراداس ترقی یافتہ دور میں بھی یہی چاہتے ہیں کہ جہالت کابول بالا ہواورچراغ علم کو گل کردیا جائے! لیکن خداوندعالم کا ارادہ ہے کہ'' علم کا ہمیشہ رہے بول بالا اور جہالت کامنھ ہوجائے کالا''اگرخداوندعالم علم دوست نہ ہوتا تو اپنے انبیاء واولیاء کو دولت علم سے مالامال نہ کرتااورآیات و روایات میں جہالت کی مخالفت کاوجودنہ ہوتا۔ مولائے کائنات علی علیہ السلام کاارشاد ہے: ''طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَة عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ'' یعنی علم دین کا حصول ہرمسلمان پرفرض ہے، اس حدیث شریف میں کسی قسم کی قیدوبندنہیں ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اپنی خواتین کو بھی جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر علم کی نورانی وادیوں کا مسافر بنائو کیونکہ امت مسلمہ کی ہرفردپرعلم کا حصول فرض کیا گیا ہے۔یہ بدگمانی اپنے ذہن سے نکال دینی چاہئے کہ جہالت کے سبب بخش دیئے جائیں گے کہ پروردگار!ہمیں علم نہیں تھااس وجہ سے فلاں حکم کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔جہالت کی معافی نہیں ہے اس لئے کہ خداوندعالم اوراس کے انبیاء و اوصیاء نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا اور انسان کے ہربہانہ کا سدّباب کردیا ہے۔ ایک مقام پر مولائے کائنات علی علیہ السلام کا ارشاد ہے: ''اُطْلُبُوْا الْعِلْمَ مِنَ الْمَھْدِ اِلیٰ اللَّحَدِ''یعنی گہوارہ سے قبرتک علم حاصل کرو، اس حدیث شریف سے تعلیم کی اہمیت بخوبی واضح ہوجاتی ہے ،تعلیم پراتنا زوردیا گیا ہے کہ نادان بچہ جو گہوارہ میں ہے اس کو بھی تعلیم دو اور جو انسان قبر کی آغوش میں سو رہا ہے اس کو بھی تعلیم دو، بچہ کے کانوں میں اذان واقامت کاحکم گہوارہ کی تعلیم ہے اور قبرمیں لٹاکرتلقین پڑھنامردہ کو تعلیم دیناکہلاتاہے۔ ایک مقام پر مولائے متقیان علی علیہ السلام ارشادفرماتے ہیں: ''اُطْلُبُ اْلعِلْمَ وَلَوْکَانَ بِالسِّیْنِ''یعنی علم حاصل کروچاہے چین جانا پڑے، اس حدیث شریف کی کئی تفسیریں کی گئی ہیں، ایک تفسیر یہ ہے کہ چین سے مراد دوری ہے یعنی اگر علم کے حصول میں بہت دور جانا پڑے تب بھی علم حاصل کرو؛ ایک تفسیر یہ ہوئی ہے کہ اس دور میں چین علوم وفنون کا مرکز تھا لہٰذا یہ کہاگیا کہ چاہے چین ہی جانا پڑے لیکن علم حاصل کرو؛ اس حدیث سے علم کی فضیلت بحسن وخوبی آشکارہوجاتی ہے۔ ایک مقام پر مولا علی فرماتے ہیں: ''اگرشیعہ جوانوں میں مجھے کوئی ایسامل گیاجس کے پاس دینی معلومات نہ ہوں تومیں اسے سزا دوں گا''(١)؛ اس قول مبارک کے پیش نظر،سزاسے محفوظ رہنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ طریقہ ہے''تعلیم کا حصول''۔ایک مرتبہ مولائے کائنات کی خدمت میں دس افرادحاضرہوئے جنھوں نے ایک ہی سوال کیا لیکن جواب الگ الگ طلب کئے، ان دس افراد کا سوال یہ تھا: ''علم افضل ہے یا مال؟'' پہلے نے سوال کیا تو مولا نے جواب دیا: ''علم افضل ہے،اس لئے کہ مال ختم ہوجاتاہے لیکن علم کاخاتمہ نہیں ہوتا ''دوسرے کے سوال پرآپ نے جواب دیا: ''علم بہتر ہے،اس لئے کہ مال ہامان وقارون کی میراث ہے اورعلم انبیاء الٰہی کی میراث ہے'' تیسرے نے سوال کیا تو آپ نے جواب دیا: ''علم افضل ہے،کیونکہ مال کی چوری کا امکان ہے لیکن علم ایسی شئے ہے جوچوری نہیں کی جاسکتی'' چوتھے انسان نے سوال کیا تو حضرت نے جواب دیا: ''علم افضل ہے،کیونکہ مال کی حفاظت تم خود کرتے ہولیکن علم تمہاری حفاظت کرتا ہے '' پانچویں انسان کے جواب میں آپ نے فرمایا: ''علم افضل ہے، کیونکہ صاحبان اقتداروثروت کے دشمن زیادہ ہوتے ہیں لیکن صاحبان علم کے دوستوں کی کثرت ہوتی ہے'' آپ نے چھٹے انسان کو جواب دیا: ''علم افضل ہے، کیونکہ مالدار انسان بخل کا مریض ہوجاتا ہے لیکن صاحب علم کوکرامت عطاہوتی ہے یعنی مالدارکنجوس ہوتا ہے اورعالم کریم ہوتا ہے '' حضرت نے ساتویں شخص کوجواب دیا: ''علم افضل ہے،کیونکہ بروز قیامت مالدارسے حساب وکتاب ہوگالیکن صاحب علم سے اس کے علم کے بارے میں کوئی سوال نہیں ہوگا '' آٹھویں شخص نے سوال کیا تو آپ نے فرمایا : ''علم افضل ہے، کیونکہ مال زمانہ کے ساتھ ساتھ پرانا ہوجاتاہے لیکن علم کسی زمانہ کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ یہ ہرزمانہ میں تروتازہ اورنیا رہتا ہے '' حضرت نے نویں انسان کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: ''علم افضل ہے، کیونکہ مال سے انسان کا دل سیاہ وتاریک ہوجاتا ہے لیکن علم سے دل میں نورپیداہوتاہے'' آخری اور دسویں شخص کے جواب میں آپ نے ارشادفرمایا: ''علم افضل ہے، کیونکہ مالدار فرعون کی مانندخدائی کا دعویٰ کربیٹھتا ہے لیکن صاحب علم عجزو انکساری کا اظہارکرتاہے کہ اے میرے معبود! میں تیری عبادت کا حق ادانہیں کرپایا! '' اس کے بعد حضرت نے فرمایا: ''قسم ہے وحدہ لاشریک کی،اگرتم قیامت تک یہی سوال کرتے رہوگے تومیں تمہیں الگ الگ جواب دیتا رہوں گا'' اس فقرہ سے سمجھ میں آتا ہے کہ علم ایسا لامتناہی سمندرہے کہ جس کی حدودمعین نہیں، یہ بھی تو علم کا ایک منھ بولتا شاہکار ہے کہ مولا ایک ہی سوال کے دس جواب دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگرقیامت تک یہی سوال کرتے رہوگے تومیں الگ الگ جواب دیتا رہوں گا!۔ اگران دس جوابوں کی تشریح کی جائے تو بحث بہت طولانی ہوجائے گی لہٰذا اس سے غض نظرکرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں، علامہ زمخشری اپنی کتاب''اربعین جاراللہ''میں رقمطراز ہیں: ''یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب حضوراکرم نے مولا علی کی شان میں یہ حدیث ارشادفرمائی تھی: اَنَا مَدِیْنَةُ الْعِلْمِ وَ عَلِیّ بَابُھَا''یعنی میں شہرعلم ہوںاورعلی اس کا دروازہ ہے، جب خوارج نے یہ فضیلت سنی تو ان کے حلق سے نیچے نہیں اتری اور ان کے دس اکابر علماء آگے بڑھے اورکہا: ''اگرآپ ایک ہی سوال کے دس جواب دے دیں گے تو ہم یقین کر لیں گے کہ آپ شہرعلم کے درہیں''لیکن جب دل سیاہ ہوجائے تواس پر کسی قسم کی وعظ ونصیحت اور کسی بھی نمونہ کا اثرنہیں ہوتا، ان کے دل ٹہڑے ہوچکے تھے لہٰذا ان کے دلوں پر دس جواب سننے کے بعد بھی کوئی اثرنہیں ہوا۔علم کی فضیلت کسی بھی صاحب عقل پرمخفی نہیں ہے،اس لئے کہ یہی وہ گرانبہا گوہر ہے جس کے ذریعہ حیوان وانسان میں جدائی ہوتی ہے لہٰذا ایک جاہل انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ جو خصلتیں انسان میں پائی جاتی ہیں وہ تمام اوصاف جانور میں بھی پائے جاتے ہیں،انسان وحیوان کے درمیان طرّۂ امتیاز فقط علم ہی ہے۔ احکام الٰہی پر عمل پیرا نہ ہونے والوں کی مذمت میں ارشاد ہوتا ہے: (یہ توجانوروں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر)اس لئے کہ جانورعقل کی نعمت سے محروم ہوتا ہے لیکن یہ انسان ہے کہ اسے دولت عقل سے بھی نوازا لیکن یہ پھربھی جہالت کا دلدادہ رہااورتعلیم کے حصول میں آگے نہ بڑھ سکا کہ اس کے ذریعہ احکام الٰہی کو عملی جامہ پہناسکے!۔علم کی اہمیت کے پیش نظررسول خدا نے ارشاد فرمایا: ''علم اسلام کی زندگی کاسہارا ہے،جس نے تھوڑاسا علم حاصل کیااس کوخداکی جانب سے پورا اجرعطاہوگا؛جس نے علم حاصل کیا اوراس پرعمل بھی کیاتوخداوندعالم اسے ایسی شئے کا علم دے گاجووہ نہیں جانتا''(٢)؛ اس حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ اگرہم جاہل رہ گئے توکسی بھی طرح دین کو سہارا نہیں دے سکتے کیونکہ علم ہی دین اسلام کا سہاراہے، اسلام کاسہاراصاحب علم ہی بن سکتا ہے،لہٰذا دین اسلام کو پائیداربنانے کے لئے امت مسلمہ کی ہرفردپرواجب ہے کہ میدان علم کی جانب گامزن ہو۔ایک مقام پررسول خدا کاارشاد ہے: ''علم ہرنیکی کی بنیاد ہے اورجہالت ہرشرکی بنیادہے'' (٣)؛ یعنی علم وہ گرانبہاسرمایہ ہے جومعاشرہ میں پرچم امن واتحادلہراتاہے اور جہالت اس بلا کا نام ہے جو ہمارے سماج کو تباہی کے گھاٹ اتاردیتی ہے؛ اگرکسی معاشرہ میں فسادات کابول بالاہوتوسمجھ لیجئے کہ اس سماج پرجہالت کاراج ہے ، اگرکوئی عالم فسادات برپاکرتا نظر آئے تو وہ عالم نہیں بلکہ جاہل ہے جو شیطان کی پیروی کرتے ہوئے عالم کے لباس میں جلوہ نماہواہے ۔حضوراکرم کاارشادہے: ''علم ایساخزانہ ہے کہ جس کی کنجی سوال ہے''اگرکسی کے پاس علم ہے تو اس سے سوال کریں کیونکہ سوال سے چارلوگوں کو فائدہ ہوتا ہے:(الف)سوال کرنے والے کو(ب)جواب دینے والے کو (ج)سامعین کو(د)ان کے احباب ورفقاء کو(٤)؛ آخرکون انسان ایسا ہوگا جو اپنے فائدہ کی فکرمیں نہ ہو؟ ہرانسان یہی چاہتا ہے کہ اسے کسی نہ کسی طریقہ سے فائدہ حاصل ہوجائے! اگرہم فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ایسا فائدہ حاصل کریں کہ اس میں دوسرے دینی بھائی بھی شامل ہوجائیں!۔ایک مقام پررسول اسلام ارشادفرماتے ہیں: ''علم ہرعیب کوچھپالیتا ہے اورجہالت ہرعیب کو آشکارکردیتی ہے''یعنی علم کے ذریعہ ہزار عیوب کو بھی چھپایا جاسکتا ہے لیکن جہالت عیوب کو ظاہرکردیتی ہے،اسی لئے کہاگیاہے کہ'' پہلے تولوپھربولو''تول کربولناصاحبان علم کی میراث ہے اور بول کرسوچنا جہالت کی علامت ہے،اگرہم آغوش جہالت کے پروردہ ہوں گے تو عیوب کا چھپانا محال ہے، اگرہمیں اپنے عیوب کو چھپانا ہے تو میدان علم میں قدم رکھنا ہوگا تاکہ ہم جہالت کی تاریکیوں کو نورعلم کے زیرسایہ ایسی کھائی میں دھکیل دیں کہ وہ دوبارہ اپنا سر نہ اٹھاپائے، جہان انسانیت کاتقاضاہے کہ علم حاصل کیاجائے تاکہ دشمن کے حملہ سے پہلے ہی اس کے دفاع کی مکمل آمادگی ہوسکے،دشمن کا منھ توڑ جواب علم کے ذریعہ ہی ممکن ہے، اس دورمیں مسلمانوں پر چاروں طرف سے دشمن کی یلغارہے لہٰذاہرمسلمان کا فریضہ ہے کہ علم کو اہمیت دے،اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم سے نوازے اوردشمن کے لئے لشکرتیارکرے تاکہ علم دشمن افراد کو سبق سکھایاجاسکے، آخر میں بارگاہ ایزدی میں دست بہ دعا ہوں کہ پروردگار!ہمارے قلوب کو نورعلم سے منورفرمااورجہالت کی تاریکیوں کوہمارے وجود سے دورکردے۔'' آمین''۔ ''والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ ''۔      


حوالہ جات:(١)المحاسن: ج١، ص٢٢٨۔ (٢)نہج الفصاحة:باب العلم۔ (٣)جامع الاحادیث: باب علم۔ (٤)تحف العقول: باب فضیلت علم۔  
 
P.A. EDUCATIONAL SOCIETY - Free Blogger Templates, Free Wordpress Themes - by Templates para novo blogger HD TV Watch Shows Online. Unblock through myspace proxy unblock, Songs by Christian Guitar Chords